Sunday 1 October 2017

تعلیم میں تنقیدی اور تخلیقی صلاحیتوں کواجاگر کرنے کی ضرورت Creativity and critical thinking skills for children

سکول کی تعلیم سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ  بچوں کی سوچ پہ مثبت اثر ڈالے اور انہیں معاشرے کے لئے ایسا فرد بنائے جو بہترین شہری ثابت ہوں، خود مختار فیصلہ کر سکیں اور اپنے ہر عمل کی ذمہ داری  اٹھا سکیں جس کاتعلق معاشرے کے دیگر  افراد سے ہو- تعلیم کو اگر صرف حقائق رٹوانے تک محدود کر دیا جائے توبچوں کی تخلیقی سوچ اور تنقید کرنے کی صلاحیتوں کو پنپنے کا زبردست موقع ایک نہایت فرسودہ نظام کی نظرہو جاتا ہے

تحقیق یہ بات ثابت کرتی ہے کہ بچوں کی تخلیقی اورتنقیدی صلاحیتوں کو اگر بچپن کے شروع کے 10 سال  خوب توجہ دی جائے اور ان کو بھرپور الفاظ کے ذخیرے سے روشناس کرایا جائےتو ایسے بچے نا صرف تعلیمی قابلیت میں اچھی کارکردگی حاصل کرتے ہیں بلکے زندگی میں آگے آنے والے معملات میں بھی بہتر فیصلہ  کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں- تعلیمی تحقیق میں بے شمار ثبوت ہیں جو اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ کامیاب افراد کی زندگی میں ان کے سوچنے، تخلیق اور تنقید کرنے کی صلاحیتیں ایک بہت مثبت کام سر انجام دیتی ہیں - اس کے برعکس وہ افراد جو بچپن میں ہی سوچنے،  تنقید اور تخلیق کرنے میں مہارت حاصل نہیں کرتے وہ بہترین روزگار یا اعلیٰ تعلیم تک نہیں پہنچ پاتے۔

 تخلیق اور تنقید کی بیشمار تعاریفیں بیان
 کی جاتی ہیں لیکن عام فہم کے مطابق تخیلق کا مطلب  دیئےگئے  حالات، الفاظ یا چیزوں کی مدد سے ایک انوکھی سوچ، ترکیب یا بات  کا حل نکالنے کی صلاحیت ہے- تنقید سےمراد یہ ہے کہ  بات کے ہر پہلو کوواضح طور پہ دیکھنے یا بیان کرنے اور اس کے علاوہ متضاد خیالات کوپرکھنے اور بیان کرنے کی صلاحیتیں۔

تحقیق یہ نظریہ بھی پیش کرتی ہی  کہ یہ صلاحیتیں قدرتی طورپہ پروان چڑھتی ہیں لیکن بچوں کی پرورش اگر اچھے سکول اور گھر کے ماحول میں ہوتو ان صلاحیتوں کو زیادہ  بہتری دی جاسکتی ہے۔تحقیق کے مطابق
 تخلیقی اور تنقیدی صلاحیتوں کو جو تعلیمی سرگرمیاں بڑھاوا دے سیکتی ہیں ان سب میں ایک بات عام ہے کہ بچوں کی رائے اور نظریے کو اہمیت دی جائے اورسکول اور کلاس ایک محفوظ ماحول دیں جس میں بچےایک قائدے کے مطابق بلا خوف اور خطر اپنے نظریات اور رائے کااظہار کر سکیں۔

 فلاسفی فور چلڈرن (فلسفہ بچوں کے لئے) ایک ایسی سرگرمی ہے جس کا مقصد
 بچوں میں تنقیدی اور تخلیقی صلاحیتیں پیدا کرنا ہے۔ اس سرگرمی پہ  بہت تحقیق کی گئی ہے اور اس کے نتائج سے وضاحت  ہوئی ہے کہ پرائمری سکول کے بچوں میں ایسی سرگرمیوں سے بچوں کی بولنے، بات چیت کرنے اور دوسروں کو سننے اور سمجھنے کی صلاحیت پہ مثبت  اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس طرح کی سرگرمیوں کا مثبت  اثر بچوں کی تعلیمی قابلیت کے 
امتحان پہ بھی واضح ہوا ہے۔

جن بچوں کا تعلق کم وسائل والے خاندان سے ہے ان بچوں کی تنقیدی اور تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں بھی ایسی سرگمیاں مثبت نتائج ثابت کرتی ہیں جن میں ان بچوں کی رائے کو اہمیت دی جائے اور ان کو بولنےاور سننے کے بھر پور مواقع بھی دیئے جائیں۔

پاکستان کے تعلیمی نظام میں ایسی سرگرمیوں کو کچھ خاص اہمیت نہیں دی جاتی۔اس کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن ایک اہم وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہم بچوں کی آواز، رائے یا ان کے نظریات کو اہمیت نہیں دیتے۔ جب تک بچے اپنے خیالات کو الفاظ کی شکل نہ دیں یا کسی اور طریقے سے ان کا اظہار نہ کر سکیں یا کسی خوف کا شکار ہوں تب  تک یہ ممکن نہیں کے وہ اپنی  تخلیقی اور تنقیدی صلاحیتوں کو پہچان سکیں- اساتزہ کے لئے بھی ممکن نہیں کہ وہ بچوں کی ان صلاحیتوں کی تشخیص کر سکیں جب تک  کے وہ بچوں کے خیالات، رائے اور نظریات کو فوقیت نا دیں یا ایسے مواقع نا پیدا کریں جہاں سب بچے ان صلاحیتوں کوآزما سکیں۔

Sunday 24 September 2017

سماجی گروہ بندی اور تعلیمی اداروں کا کردار

تعلیم کا حصول ہر بچے کا بنیادی حق ہے- اس میں ہر گز شک کی گنجایش نہیں کہ تعلیم نہ صرف انفرادی طور پہ لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بناتی ہہ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ملک کے  اقتصادی اور  سماجی حالات پہ بھی مثبت اثر انداز ہوتی ہے۔ سماجی ترقی کا کوئی بھی پہلو سکول کی جدید اور معیاری تعلیم کے بغیر ممکن نہیں لہٰزا قومی سطح پہ تعلیم کے معیار کو بہتر کئے بغیر اقتصادی اور سماجی ترقی نا ممکن ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے بنیادی تعلیم کی اہمیت کو ہر چیز پہ فوقیت دی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں سماجی اور اقتصادی ترقی کی بنیاد ایک ایسا تعلیمی نظام ہے جو حکومتی سطح پہ مفت اور معیاری تعلیم مہیا کرتا ہے  اور اس نظام تک
ہرسماجی طبقے کی مکمل رسائی ہے۔ 
تعلیمی سہولت کو عام کرنا ہماری کسی بھی حکومت کی ترجیہات میں شامل نہیں رہا اور یہی وجہ ہے کہ تعلیمی پالیسی کو ہم آج تک منظم نہیں کر سکے- مسلسل غفلت کا شکار رہنے کی وجہ سے  سکول کی تعلیم کو ہم نے نجی اداروں اور غیر ملکی امداد پہ چلنے والی تنظیموں کے سپرد کر دیا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے بچے تعلیمی گروہ بندی کا شکار ہیں- دو نمایاں گروہ میں سے ایک وہ ہے جس کو سکول کی تعلیم تک رسائی حاصل ہے اور دوسرا وہ جو مکمل طور پہ اپنے بنیادی تعلیم کے حق سے محروم ہے۔ جو بچے سکول کی تعلیم تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے ہمارے معاشرے کی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں کیونکہ بنیادی تعلیم کا مثبت اور گہرا تعلق افراد کی معاشی ترقی، صحت اور فلاح و بہبود سے ہے اور مل کر یہ سب چیزیں معاشرے کی ترقی کا سبب بنتے ہیں۔ تعلیم سے محروم بچے غربت کی چنگل سے آزادی نہیں حاصل کر سکتے اور یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا ہے۔ غربت سے مراد ایک ایسا معیار زندگی جو بنیادی ضروریات سے محروم ہے اور ان رویوں کا شکار ہے جو انفرادی فلاح و بہبود کے مخالف ہیں۔      
ایک بہت بڑا سماجی طبقہ جواپنے بچوں کے  تعلیمی اخراجات کو باخوبی پورا کر سکتا ہے نجی ادارے کی خدمات حاصل کرتا ہے اور اس کے برعکس شدید غربت کا شکار لوگ بچوں کو مدرسے کی غیر معیاری تعلیم کے سپرد کردیتے ہیں اور ان میں سے بیشتر بچوں کو تعلیم کے حق سے ہی محروم رکھتے ہیں۔ تیسرا وہ طبقہ ہے جو با مشکل تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے کی گنجائش رکھتا اوراپنے بچوں کے لئے ایسے نجی سکول کا انتخاب کرتا ہے جو کم سے کم فیس پہ بچوں کو داخلہ دیتے ہیں اور ان سکول تک رسائی حاصل کرنے کے لئے کسی بھی مزید خرچے کی ضرورت نہیں ہوتی- ان سب اقسام میں سرکاری  سکول ایسے ہیں جو والدین کے معاشی حالات کو بلائےطاق رکھ کر بچوں کو تعلیم دیتے ہیں لیکن سرکاری سکول کے مقابلے میں کم فیس والے نجی سکول تک رسائی حاصل کرنا آسان ہے- کم فیس والے نجی سکول ہر شہری گلی اور محلے میں کھل چکے ہیں جہاں غریب طبقے کے لوگ سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے بچوں کو تعلیم دلواتے ہیں۔ اس میں ہر گز شک کی گنجائش نہیں کہ نجی سکولوں نے تعلیم کی ضرورتوں کو پورا کیا اور بہت حد تک اس کے معیار کوبھی قائم رکھا ہے- لیکن نجی ادارے ہر گز قومی سطح پہ تعلیم کی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتے۔ غربت کی لکیر سے نچلا طبقہ تو ہر گز کسی بھی قسم کے تعلیمی خرچے کو پورا نہیں کرسکتا لہٰزا عالمگیر سطح پہ مفت تعلیم دینا صرف حکومت کی ذمہ داری ہے-
نجی سکول کسی واحد پالیسی کے پیش نظر فیس اور دیگر تعلیم کے اخراجات کا معیار نہیں بناتے۔ سرکاری پالیسی کے تحت بھی نجی سکولوں کی تشخیص اور نگرانی نہیں کی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ  نجی سکول معاشی سطح پہ سماجی گروہ بندی کرتے ہیں جس میں غریب اور امیر کا فرق بہت نمایاں ہوتا ہے۔ مہنگے نجی ادارے کے سکولوں میں امیر طبقے کے بچے تعلیم حاصل کرتے جبکے کم فیس والے گلی محلے کے سکول یا مدرسے میں غریب طبقے کی نسل پروان چڑھتی ہے۔ سرکاری سکولوں کا معیار اور ان تک مکمل رسائی سماجی اور معاشی تفریق کو پھرپور طریقے سے چیلنچ کرتے ہیں۔ اگر سرکاری سکولوں کا معیار بڑھایا جائے اوران تک رسائی آسان ہو تو ہم ایسا تعلیمی نظام قائم کر سکتے ہیں جس میں امیر اور غریب طبقے دونو کومعیاری اور مساوی تعلیم ملے اور بچوں کو سکول ہی کی سطح پہ ایک ایسے معاشرے سے متاعرف کرایا جائے جہاں ہر معاشی طبقے، رنگ، نسل، مزہب اور زبان سے تعلق رکھنے والے بچے ایک ساتھ  تعلیم حاصل کریں۔  
شدید غربت سے دوچار خاندانوں کا انحصار بچوں کی مزدوری سے حاصل کی گئی رقم پہ ہوتا ہے اور پاکستان میں کئی گھروں میں چولہا جلتا ہی بچوں کی کمائی سے ہے لہٰزا تعلیم جیسے بنیادی حق سے محروم بچے شائد خاندان کے لئے ذریع آمدن تو ہو سکتے ہیں  لیکن سماجی اور اقتصادی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ کا سبب بنتے ہیں۔پاکستان میں بنیادی تعلیم کو قانونی طور پہ آج تک لازمی قرار نہیں دیا گیا ۔ تعلیم کو لازمی قرار دینے کا مطلب ایسی قنانون سازی ہے جس میں 16 سال سے کم عمر بچوں کو مزدوری اور محنت کشی کے لئے استعمال کرنے پہ مکمل پابندی ہو اور 5 سال سے زائد عمر کے بچوں کا سکول میں داخلہ نا کرانا قانوںی جرم قرار دیا جائے- قانونی اقدامات بغیر اقتصادی پیکج اور ریلیف سکیم کے بے معانی ہیں اور شائد یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی بھی حکومت نے قومی سطح پہ تعلیم کو عام نہیں کیا- معاشی سرمائے کو بچوں کی تعلیم کے لئے وقف کرنے کے لئے مکمل پالیسی اور تشخص کی ضرورت ہے- اس کے لئے ضروری ہے کہ قومی سطح پہ ہر بچے کا ریکارڈ ہو اور ہر خاندان کی معاشی حیثیت کے مطابق حکومت لوگوں کو ریلیف پیکج تقسیم کر سکے۔ اکثر ممالک نے غریب بچوں کو سکول میں معیاری اور مفت کھانے کی سکیم دے کربھی غریب طبقے کو سکول کی طرف راغب کیا ہے- اگر ایسے اقدامات سرکاری سکولوں میں منظم طریقے سے کئے جائیں تو ان کے بہت مثبت نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
پاکستان بچوں کا 100٪ تعلیمی حدف حاصل کرنے سے بہت دور ہے۔ پاکستان کے بیشتر مسائل کا حل صرف اور صرف یکساں تعلیم کا نظام ہے جو ہر معاشی طبقے کی دسترس میں ہو۔ اس کا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ نجی سکولوں کو بند کر دیا جائے اور صرف سرکاری سکول بنائے جائیں یا نجی سکولوں کو سرکاری میں ضم کر دیا جائے۔   تعلیم کو عام اور سستا کرنے کے لئے سکرکاری سکولوں کو بڑے پیمانے پھیلایا جائے اور معیار تعلیم کو اس طرح بہتر بنایا جائے کہ ہر سرکاری سکول اپنا معیار بہتر کرنے کا پابند ہو اورمعیار بہتر  نہ ہونے کی صورت میں اس سکول کو بند کر دیا جائے یا دوسرے سرکاری سکول کے ساتھ ضم کر دیا جائے-
جب تک ہم تعلیم کی اہمیت اور سماجی تشکیل میں سکولوں کے کردار کو سنجیدگی سے نہیں لیں گے اس وقت تک پاکستان کی صورتحال بہتر نہیں ہو گی اور ہم معاشرتی سطح پہ ان سب مشکلات کا شکار رہیں گے جس سے ہمارا مستقبل اور ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل خطرے میں رہے گا۔   

Children living in chronic poverty and the role of school وسائل میں کمی اور بچوں کا گھر سے سکول تک کا سفر

 سکول کی سرگرمیوں کا سب سے اہم مقصد بچوں کی تعلیمی قابلیت پر مثبت اثر ڈالنا ہوتا ہے لیکن سکول کی اہمیت بچوں کی زندگی میں تعلیمی کارکردگی تک محدود نہیں ہوتی۔ سماجی زندگی کی جانب بچوں کے رویئے اور ان کی شخصیحت اور کردار کی پرورش میں سکول اور اساتزہ اہم کام سر انجام دیتے ہیں۔ تحقیق نے ایک یہ نظریہ بھی سامنے رکھا ہے کہ سماجی زندگی کا  پہلا تعارف سکول کا ماحول ہوتا ہے-عملی زندگی میں افراد کی سوچ، عمل اور رویئے ان کے سکول کی زندگی، قائدے ، قانون اور تجربات کا عکس ہوتے ہیں۔ سکول کی زندگی سماجی زندگی کی جانب پہلا قدم ہوتی ہے - سکول میں بچوں کے روئیے اور نظریات کی ایسی پرورش   
ہوتی ہے جس کو وہ عملی زندگی میں بلکل ایسے ہی نبھاتے ہیں-
تعلیمی سرگرمیوں میں بہترین کارکردگی والے بچوں کو اساتزہ اور سکول کی 
انتظامیہ بہت اہمیت دیتی ہے۔ جو بچے پڑھائی میں آگے ہوتے ہیں ان کو خوب پزیرائی ملتی ہے جبکے عام کارکردگی والے  بچے  تمام محنت کے باوجود اساتزہ کی پزیرائی اور توجہ حاصل نہیں کرسکتے- پڑھائی میں کمزور بچوں کو نا صرف سزائیں زیادہ دی جاتی ہیں بلکے اکثر ان کو منفی مثال کے طور پہ بھی پیش کیا جاتا ہے-

 اساتزہ اور سکول کی انتظامیہ اکثر یہ نظرانداز کردیتے ہیں کہ پڑھائی میں کمزور بچوں کا تعلق کسی اہم خصوصیت، معزوری یا ذہنی کمزوری، گھر میں حالات وسائل کی کمی، اور ماں باپ کی کم تعلیم  سے بھی ہو سکتا جو ظاہری طور پہ واضح  نہ ہو- پڑھائی میں بہتر کارکردگی والے بچے بھی خصوصیت کے قابل ہوتے ہیں جیسے عمر میں بڑا ہونا، وسائل والے خاندان سے تعلق رکھنا، ماں باپ کا پڑھا لکھا ہونا، کم افراد اور زیادہ وسائل  کی فیملی میں رہنا۔ یہ وہ بنیادی فرق ہیں جو بچوں کی قابلیت سے گہرا تعلق رکھتے ہیں- اساتزہ اور سکول کی انتظامیہ اگر ان بنیادی جیزوں کے فرق کو سامنے رکھے بغیر بچوں کی قابلیت کا اندازہ لگائیں اور ان میں اچھے بچوں اور کمزور بچوں کی تفریق کریں تو سکول میں شائد صرف ان بچوں کی پزیرائی ہو گی جو وسائل والے گھرانے سے تعلق رکھتے ہونگے۔ اساتزہ اور سکول کی انتظامیہ کا ایسے فرق کو اہمیت دینا بچوں کی سوچ پر گہرا اثر ڈالتے ہیں اورسماج میں اچھے اور برے، امیر اور غریب، ذہین اور کمزور کی پہچان میں ایک بہت بڑا فاصلہ پیدا کرتے ہیں-
بچوں کی تعداد
پڑھے لکھے والدین کے بچے
 تعلیم سے محروم والدین کے بچے
سکول
48٪
22٪
74٪
گورنمنٹ سکول والے بچے
22٪
45٪
55٪
پرائیویٹ سکول والے بچے
11٪
87٪
مدرسے والے بچے
21٪
74٪
غیررسمی سکول (ٹیوشن سنٹر)والے بچے
29٪
13٪
85٪
سکول نہ جانے والے بچے
543،417
128،628
271،541
بچوں کی تعداد

اثر سروے 2013 اور 2014 کے مطابق

جس معاشرے میں امیر اور غریب بچے پہلے سے ہی پرائیویٹ، گورمنٹ سکول
اور مدرسوں میں بٹے ہوں وہاں تعلیمی قابلیت کا معیاراور اس کی بنیاد پہ بچوں 
میں تفریق مزید سماجی گروہ بندی کو پروان چڑھاتا ہے۔

تعلیمی قابلیت کو اہمیت دینا بے حد ضروری ہے لیکن اگر اس پر توجہ اس قدر 
مرکوز کر دی جائے کے مزید کسی قابلیت کی پزیرائی نہ ہو سکے تو ہم ان بچوں کو نظر انداز کر تے ہیں جن کی صلاحیتیں اور محنت کے تنائج تعلیمی سرگرمیوں سے ظاہر نہیں ہو سکتے۔  صرف قابلیت اور انوکھی صلاحیت  کو مد نظر رکھنے کے علاوہ یہ اندازہ لگانا بھی ضروری ہے کہ بچے کن سماجی اور معاشی حالات کا سامنا کرتے ہوے سکول آتے ہیں۔ گھر سے سکول تک کا سفر اگر معاشی اور سماجی  رکاوٹوں سے بھرپور ہو تو ایسے بچوں کے لئے سکول کا اولین مقصد ایک زندگی کی امید دینا اورتنگی اور سماجی دباؤ سے پناہ مہیا کرنا ہوتا ہے-
غربت اور سماجی دباؤ میں گھرے بچے اول تو سکول تک پہنچ ہی نہیں پاتے لیکن اگر ان تمام مسائل کے ہوتے ہوئےبھی  بچے سکول کی چار دیواری میں روزانہ داخل ہو جاتے ہیں تو ایسے سکول اور استازہ پہ اہم ذمہ داری ہے کہ بچوں کو بھرپور توجہ دیں اور خوب حوصلہ افزائی کریں جن سے ان بچوں کی ہمت اور ثابت قدمی کو مزید فروغ ملے۔سکول تعلیم حاصل کرنے سے کئی زیادہ ایسی امجگاہ ہونا چایئے جہاں ہر سماجی اور معاشی فرق کو بلائے طاق رکھ کر ہر بچہ بہترین انسان بن سکے-

مغربی مملاک میں سکولوں میں نہ صرف دن کا کھانا مفت مہیا کیا جاتا ہے بلکے ہر غریب بچے کو داخلہ دینے پر سکول کو مزید رقم بھی دی جاتی ہے تاکے معاشی اور سماجی دباؤ میں گھرے بچے کوخصوصی توجہ دی جائے اور ان خاص بچوں کی ان ضروریات کو سکول پورا کرے جو گھریلو وسائل میں کمی کی وجہ سے بچے محروم ہوں۔

ہمارے ہمسائیہ ملک انڈیا نے بھی اب تمام گورنمنٹ سکولوں میں  بچوں کے لئے مفت دن کے کھانے کی پالیسی  کی پالیسی کو لازمی  طور پہ رائج کردیا ہے- اس سکیم کے اجراء سےمثبت نتائج بھی واضح ہوئے ہیں-  

ایک معاشی اور سماجی طور پہ بڑھتے ہوئے ملک کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ تعلیمی وسائل کو سب سے اولین ترجیح دی جائے ورنہ امیر اورغریب کے فرق میں  پروان چڑھنے والی نسل کسی طور پہ اس ملک کو مستحکم بنا سکتی۔ تعلیمی فروغ میں عالمی اداروں کا کردار بہت اہم ہے لیکن غیر ملکی امداد ایک حد تک تعلیمی جدو جہد اور وسائل کی کمی کو پورا کرنے میں میں ہمارا ساتھ دے سکتی ہے- ریاستی ذمہ داریاں غیر ملکی امداد یا پرایئویٹ اداروں کی مدد سے ہر گز پوری نہیں کی جاسکتیں اور ایک بہت بڑی کمی کو پورا کرنے کے لئے حکومتی سطح پہ جب تک کام نہیں ہو گا اس وقت تک  تعلیمی حدف پورا نہیں ہو گا۔

یہ صرف اور صرف ریاست کی ذمہ داری ہے جو یہ ممکن بنائے کہ ہربچہ گھر سے سکول تک کا سفر ایک امید کے ساتھ  اور بھرپور وسائل کی موجودگی میں پورا کرے ۔ اس کے علاوہ تعلیمی ادارے، اساتزہ اور والدین اس بات پہ بھی توجہ دیں کے سکول کی تعلیم کا مقصد ایک شہری کے کردار کی تکمیل ہو نہ کے معاشرے میں ڈاکٹریا انجیئر پیدا کرنا ہوں- مہزب معاشرے ہر دور میں آگے کی جانب بڑھتے ہیں اور سکول ایک مہزب معاشرے کے لئے انجن کا کام کرتے ہیں۔ اگر انجن کو توجہ نہ دی جائے اور اس کے عمل میں بیشمار خرابیاں ہو تو ایک مہزب معاشرے کو تشکیل نہیں دیا جاسکتا۔

Friday 15 September 2017

بچوں کی پیدائش کا مہینہ اور تعلیمی قابلیت کا فرق Month of birth and academic achievement gap

 والدین اور اساتزہ اس بات پہ یقین کرتے ہیں کہ کلاس کے ہر بچے کو سکول  میں یکساں اہمیت ملتی ہے  اور کلاس کا ہر بچہ سیکھنے کےعمل سے ایک ہی طرح گزرتا ہے۔ یہ توقع کی جاتی ہے کہ نا صرف  سیکھنے کا عمل ہر بچے کے لئے مساوی ہو گا بلکے ہر بچہ مناسبت کے لحاظ سے ایک سی قابلیت حاصل کرے گا۔ بہت حد تک یہ بات درست ہے کہ ہر بچہ سیکھنے کے عمل سے کلاس کے باقی بچوں کی طرح ہی گزرتا ہے مگر قابلیت کی مناسبت سے دیکھا جائے توسال کے آخری امتحان میں بچوں میں بہت سے فرق نمایاں  ہوتے ہیں- کچھ بچے قابلیت کے امتحان میں بہت آگے ہوتے ہیں اور کچھ بہت ہی پیچھے جبکے اکثریت اوسط درجے کی قابلیت رکھتے ہیں۔
 سائنسی تحقیق نے بہت سارے ثبوت واضح کئے ہیں جن کا تعلق بچوں کے سیکھنے کے عمل اور قابلیت سے ہے۔ بچوں کی عمر ایک اہم عنصر ہے  جواکثر مشاہدے سے واضح نہیں کیا جاسکتا کیونکہ سب بچے دیکھنے میں ایک سی عمر کے لگتے ہیں ۔ بہت  کم اس بات کا ادراک کیا جاتا ہے کہ کلاس کے سب بچے ایک ہی سال کی پیدائش تو ہوتے ہیں مگر مہینے کے لحاظ سے بچوں میں فرق ہوتا ہے- تعلیمی سال کی شروعات کی تاریخ والے دن پیدا ہونے والے بچے اور صرف ایک دن پچھلی تاریخ میں پیدا ہونے والے بچے میں تقریبا گیارہ مہینے کا فرق ہو سکتا ہے (ٹیبل میں سلیم اور صائمہ میں عمر کا فرق) -
اس کو مثال سے واضح اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ مان لیا جائے کے سکول میں داخلے کا دن 2 ستمبر 2017 ہے اور اس دن تک جو بچے پانچ سال کی عمر  کے ہیں ان کا داخلہ کیا جائے گا تو بچوں کی عمر کچھ یوں ہو گی:
عمر مہینوں کے مطابق
تاریخ پیدائش
بچے کا نام
60 مہینے (1826 دن)
2 ستمبر 2012
سلیم
60 مہینے (1844 دن)
15 اگست 2012
صباح
61 مہینے (1880 دن)
10 جولائی 2012
سعد
62 مہینے (1902 دن)
18 جون 2012
سنبل
63 مہینے (1926 دن)
25 مئی 2012
کامل
64 مہینے (1976 دن)
5 اپریل 2012
راشد
65 مہینے (1981 دن)
31 مارچ 2012
فری
66 مہینے (2036 دن)
5 فروری 2012
جاوید
67 مہینے (2047 دن)
25 جنوری 2012
بینا
68 مہینے (2094 دن)
9 دسمبر 2011
سمیرا
69 مہینے (2111 دن)
22 نومبر 2011
بیلا
  70 مہینے (2159 دن)
5 اکتوبر 2011
فردوس
72 مہینے (2193 دن)
1ستمبر 2011
صائمہ

تعلیمی سال کو کسی بھی تایخ سے شروع کیا جائے کلاس کے بچوں میں یہ فرق  ہمیشہ قائم رہے گا۔ برطانیہ میں تعلیم سال کی شروعات ستمبر میں ہوتی ہے لہٰزا اگست اور جولائی میں پیدا ہونے والے بچے  دیگر بچوں سے کم عمر ہوتے ہیں۔
 اس کلاس کے ریکارڈ سے یہ بات واضح ہے کہ کلاس کے بچوں کی عمر میں مہینوں اور دنوں کا فرق ہوتا ہے اور یہی فرق ان کی بات سمجھنے کی صلاحیت سے تعلق رکھتا ہے- بڑی عمر کے بچے نا صرف باقی بچوں سے صحت میں بہتر اور قد میں تھوڑا لمبے ہوتے ہیں بلکے باقی بچوں کا مقابلے میں ان کی بات سمجھنے اور الفاظ استعمال کرنے کی صلاحیت بھی کم عمر بچوں سے زیادہ ہوتی ہے-تحقیق یہ بات بھی ثابت کرتی ہے کہ چھوٹی عمر کے بچے برے رویہے کا شکار ہوتے ہیں اور اکثراساتزہ ان کو نالائق یا کمزور سمجھتے ہیں۔  بظاہر تو یہ فرق دنوں اور زیادہ سے زیادہ مہینوں کا ہے لیکن سائنسی تحقیق کے مطابق اس کے اثرات بچوں کی تعلیمی قابلیت پرہمیشہ واضح رہتے ہیں۔ یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ بڑی عمر کے بچے نا صرف دسویں کے امتحان میں کم عمر بچوں سے آگے ہوتے ہیں بلکے یونیورسٹی میں داخلے اوردیگر قابلیت کے امتحانات اور بہترین روزگار کے مواقعوں میں بھی برتری حاصل کرتے ہیں۔
بچپن کے شروع کے پانچ سال کی تعلیم اور تربیت کے اثرات تا حیات رہتے ہیں -تعلیمی سال کی بنا پر کم عمر بچے اگر بڑی عمر کے بچوں سے قابلیت میں پیچھے 
ہوں تو ایسے بچوں کو اساتزہ کی خاص توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
اگر اس فرق کو تعلیم کے پہلے پانچ سالوں میں اہمیت دی جائے اور بھرپور طریقے سے والدین کے تعاون کے ساتھ بچوں کو مسلسل توجہ دی جائے تو اس کے اثرات بہت حد تک کم کئے جا سکتے ہیں۔
اساتزہ کے لئے بہت ضروری ہے کہ بچوں کی عمر کے اس فرق کو سمجھیں اور تعلیمی قابلیت کی تشخیص کرتے ہوئے اس فرق کو سامنے رکھیں۔ مغربی ممالک نے اس تحقیق کے پیش نظر یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ ایسے قابلیت کی تشخیص کے امتحانات مرتب کئے جائیں جو بچوں میں عمر کے فرق کے مطابق قابلیت کو جانچ سکیں۔