Sunday 24 September 2017

Children living in chronic poverty and the role of school وسائل میں کمی اور بچوں کا گھر سے سکول تک کا سفر

 سکول کی سرگرمیوں کا سب سے اہم مقصد بچوں کی تعلیمی قابلیت پر مثبت اثر ڈالنا ہوتا ہے لیکن سکول کی اہمیت بچوں کی زندگی میں تعلیمی کارکردگی تک محدود نہیں ہوتی۔ سماجی زندگی کی جانب بچوں کے رویئے اور ان کی شخصیحت اور کردار کی پرورش میں سکول اور اساتزہ اہم کام سر انجام دیتے ہیں۔ تحقیق نے ایک یہ نظریہ بھی سامنے رکھا ہے کہ سماجی زندگی کا  پہلا تعارف سکول کا ماحول ہوتا ہے-عملی زندگی میں افراد کی سوچ، عمل اور رویئے ان کے سکول کی زندگی، قائدے ، قانون اور تجربات کا عکس ہوتے ہیں۔ سکول کی زندگی سماجی زندگی کی جانب پہلا قدم ہوتی ہے - سکول میں بچوں کے روئیے اور نظریات کی ایسی پرورش   
ہوتی ہے جس کو وہ عملی زندگی میں بلکل ایسے ہی نبھاتے ہیں-
تعلیمی سرگرمیوں میں بہترین کارکردگی والے بچوں کو اساتزہ اور سکول کی 
انتظامیہ بہت اہمیت دیتی ہے۔ جو بچے پڑھائی میں آگے ہوتے ہیں ان کو خوب پزیرائی ملتی ہے جبکے عام کارکردگی والے  بچے  تمام محنت کے باوجود اساتزہ کی پزیرائی اور توجہ حاصل نہیں کرسکتے- پڑھائی میں کمزور بچوں کو نا صرف سزائیں زیادہ دی جاتی ہیں بلکے اکثر ان کو منفی مثال کے طور پہ بھی پیش کیا جاتا ہے-

 اساتزہ اور سکول کی انتظامیہ اکثر یہ نظرانداز کردیتے ہیں کہ پڑھائی میں کمزور بچوں کا تعلق کسی اہم خصوصیت، معزوری یا ذہنی کمزوری، گھر میں حالات وسائل کی کمی، اور ماں باپ کی کم تعلیم  سے بھی ہو سکتا جو ظاہری طور پہ واضح  نہ ہو- پڑھائی میں بہتر کارکردگی والے بچے بھی خصوصیت کے قابل ہوتے ہیں جیسے عمر میں بڑا ہونا، وسائل والے خاندان سے تعلق رکھنا، ماں باپ کا پڑھا لکھا ہونا، کم افراد اور زیادہ وسائل  کی فیملی میں رہنا۔ یہ وہ بنیادی فرق ہیں جو بچوں کی قابلیت سے گہرا تعلق رکھتے ہیں- اساتزہ اور سکول کی انتظامیہ اگر ان بنیادی جیزوں کے فرق کو سامنے رکھے بغیر بچوں کی قابلیت کا اندازہ لگائیں اور ان میں اچھے بچوں اور کمزور بچوں کی تفریق کریں تو سکول میں شائد صرف ان بچوں کی پزیرائی ہو گی جو وسائل والے گھرانے سے تعلق رکھتے ہونگے۔ اساتزہ اور سکول کی انتظامیہ کا ایسے فرق کو اہمیت دینا بچوں کی سوچ پر گہرا اثر ڈالتے ہیں اورسماج میں اچھے اور برے، امیر اور غریب، ذہین اور کمزور کی پہچان میں ایک بہت بڑا فاصلہ پیدا کرتے ہیں-
بچوں کی تعداد
پڑھے لکھے والدین کے بچے
 تعلیم سے محروم والدین کے بچے
سکول
48٪
22٪
74٪
گورنمنٹ سکول والے بچے
22٪
45٪
55٪
پرائیویٹ سکول والے بچے
11٪
87٪
مدرسے والے بچے
21٪
74٪
غیررسمی سکول (ٹیوشن سنٹر)والے بچے
29٪
13٪
85٪
سکول نہ جانے والے بچے
543،417
128،628
271،541
بچوں کی تعداد

اثر سروے 2013 اور 2014 کے مطابق

جس معاشرے میں امیر اور غریب بچے پہلے سے ہی پرائیویٹ، گورمنٹ سکول
اور مدرسوں میں بٹے ہوں وہاں تعلیمی قابلیت کا معیاراور اس کی بنیاد پہ بچوں 
میں تفریق مزید سماجی گروہ بندی کو پروان چڑھاتا ہے۔

تعلیمی قابلیت کو اہمیت دینا بے حد ضروری ہے لیکن اگر اس پر توجہ اس قدر 
مرکوز کر دی جائے کے مزید کسی قابلیت کی پزیرائی نہ ہو سکے تو ہم ان بچوں کو نظر انداز کر تے ہیں جن کی صلاحیتیں اور محنت کے تنائج تعلیمی سرگرمیوں سے ظاہر نہیں ہو سکتے۔  صرف قابلیت اور انوکھی صلاحیت  کو مد نظر رکھنے کے علاوہ یہ اندازہ لگانا بھی ضروری ہے کہ بچے کن سماجی اور معاشی حالات کا سامنا کرتے ہوے سکول آتے ہیں۔ گھر سے سکول تک کا سفر اگر معاشی اور سماجی  رکاوٹوں سے بھرپور ہو تو ایسے بچوں کے لئے سکول کا اولین مقصد ایک زندگی کی امید دینا اورتنگی اور سماجی دباؤ سے پناہ مہیا کرنا ہوتا ہے-
غربت اور سماجی دباؤ میں گھرے بچے اول تو سکول تک پہنچ ہی نہیں پاتے لیکن اگر ان تمام مسائل کے ہوتے ہوئےبھی  بچے سکول کی چار دیواری میں روزانہ داخل ہو جاتے ہیں تو ایسے سکول اور استازہ پہ اہم ذمہ داری ہے کہ بچوں کو بھرپور توجہ دیں اور خوب حوصلہ افزائی کریں جن سے ان بچوں کی ہمت اور ثابت قدمی کو مزید فروغ ملے۔سکول تعلیم حاصل کرنے سے کئی زیادہ ایسی امجگاہ ہونا چایئے جہاں ہر سماجی اور معاشی فرق کو بلائے طاق رکھ کر ہر بچہ بہترین انسان بن سکے-

مغربی مملاک میں سکولوں میں نہ صرف دن کا کھانا مفت مہیا کیا جاتا ہے بلکے ہر غریب بچے کو داخلہ دینے پر سکول کو مزید رقم بھی دی جاتی ہے تاکے معاشی اور سماجی دباؤ میں گھرے بچے کوخصوصی توجہ دی جائے اور ان خاص بچوں کی ان ضروریات کو سکول پورا کرے جو گھریلو وسائل میں کمی کی وجہ سے بچے محروم ہوں۔

ہمارے ہمسائیہ ملک انڈیا نے بھی اب تمام گورنمنٹ سکولوں میں  بچوں کے لئے مفت دن کے کھانے کی پالیسی  کی پالیسی کو لازمی  طور پہ رائج کردیا ہے- اس سکیم کے اجراء سےمثبت نتائج بھی واضح ہوئے ہیں-  

ایک معاشی اور سماجی طور پہ بڑھتے ہوئے ملک کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ تعلیمی وسائل کو سب سے اولین ترجیح دی جائے ورنہ امیر اورغریب کے فرق میں  پروان چڑھنے والی نسل کسی طور پہ اس ملک کو مستحکم بنا سکتی۔ تعلیمی فروغ میں عالمی اداروں کا کردار بہت اہم ہے لیکن غیر ملکی امداد ایک حد تک تعلیمی جدو جہد اور وسائل کی کمی کو پورا کرنے میں میں ہمارا ساتھ دے سکتی ہے- ریاستی ذمہ داریاں غیر ملکی امداد یا پرایئویٹ اداروں کی مدد سے ہر گز پوری نہیں کی جاسکتیں اور ایک بہت بڑی کمی کو پورا کرنے کے لئے حکومتی سطح پہ جب تک کام نہیں ہو گا اس وقت تک  تعلیمی حدف پورا نہیں ہو گا۔

یہ صرف اور صرف ریاست کی ذمہ داری ہے جو یہ ممکن بنائے کہ ہربچہ گھر سے سکول تک کا سفر ایک امید کے ساتھ  اور بھرپور وسائل کی موجودگی میں پورا کرے ۔ اس کے علاوہ تعلیمی ادارے، اساتزہ اور والدین اس بات پہ بھی توجہ دیں کے سکول کی تعلیم کا مقصد ایک شہری کے کردار کی تکمیل ہو نہ کے معاشرے میں ڈاکٹریا انجیئر پیدا کرنا ہوں- مہزب معاشرے ہر دور میں آگے کی جانب بڑھتے ہیں اور سکول ایک مہزب معاشرے کے لئے انجن کا کام کرتے ہیں۔ اگر انجن کو توجہ نہ دی جائے اور اس کے عمل میں بیشمار خرابیاں ہو تو ایک مہزب معاشرے کو تشکیل نہیں دیا جاسکتا۔

No comments:

Post a Comment